حقیقی ادب
اس سیمینار میں حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ نے جو اختتامی تقریر کی، اس میں اس سیمینار کے بنیادی مقصد اور ضرورت پر روشنی ڈالی اور اس سلسلہ میں ہندوستان میں جو کام ہوا ہے، اس کا جائزہ پیش کیا، یہاں اس کا صرف ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جس میں مولانا رحمۃ اﷲ علیہ نے ادب کا بھرپور انداز میں تعارف کرایا ہے
’’ ادب ادب ہے خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو، اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو ، کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی، سننے والا اس سے لطف اٹھائے اور اس کو قبول کرے۔ میں نے کل عربی سیمینار میں کہا تھا کہ حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو، اسے پسند کیا جائے۔ بلبل کو آپ پابند نہیں کرسکتے کہ اِس پھول پر بیٹھے، اُس پھول پر نہ بیٹھے، لیکن یہ کہاں کا حسن مذاق ہے اور یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی میخانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے، اور اس سے لطف اٹھایا جائے اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں ، کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنے نمو اور اپنی جلوہ نمائی کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟۔ اقبال کا شعر تو ان کے سامنے نہیں پڑھ سکا تھا، مگر آپ کے سامنے پڑھ سکتا ہوں ؎
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
ہمیں حسن بے پروا سے مطلب ہے کہ شہر و صحرا سے ؟ تو ادب کے ساتھ معاملہ یہی کیا گیا۔‘‘(کاروان زندگی:۲؍۳۳۱-۳۳۲)