عالمی رابطہ ادب اسلامی:ایک تعارف
رابطہ ادب اسلامی ایک عالمی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد اخلاق ، مذہب اور ادب ، علم اور ادب اور فکروفن کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کے درمیان رابطہ اور تعلق پیدا کرنا ہے، اس کا مقصد بہت بلند اور اعلیٰ ہے، اور وہ ہے انسانی زندگی کی تعمیر و تشکیل، اخلاق کی اصلاح و درستگی اور انسان کی صلاحیتوں کو دوسرے انسانوں اور انسانیت کی فلاح و بہبود میں صرف کرنا اور زبان و قلم کو ان کی آلائشوں اور خرابیوں سے پاک کرنا،اور یہ حقیقت ہے کہ زبان و قلم کے غلط استعمال سے ہر دور میں انسانوں پر مصیبتیں اور پریشانیاں آئی ہیں ، کیونکہ ادب کے بارے میں یونانی فکر کے اثر سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ادب نام ہے محض اندرونی خیالات و جذبات کوموثر اور حسن بیان کے ذریعہ دوسروں کے سامنے پیش کردینے کا ، خواہ اس کا اثر قلب اور معاشرہ پر اچھا یاخراب کچھ بھی پڑے۔
اسلامی ادب
ادب کے اسی مقصد کو بروئے کار لانے اور اس کے راستہ کی تعیین و وضاحت کے لیے مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس رابطہ کی بنیاد ڈالی تھی، کیونکہ ادب ایک دودھاری تلوار ہے، اس سے خیر کا بھی کام لیا جاسکتا ہے اور شر کا بھی۔ یہ انسانی اخلاق و کردار کی تعمیر کا بہترین وسیلہ ہے اور لوگوں کو انسانی اخلاق کی بیخ کنی کی ڈگر سے ہٹاکر تعمیر و تشکیل اور اصلاح و درستگی کی شاہراہ پر ڈالنے کا ایک موثر ذریعہ بھی۔ قوت گویائی اور اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کی صلاحیت و طاقت اﷲ کی ایک عظیم نعمت ہے، جس کو اﷲ تعالیٰ نے مدح کے طور پر ذکر فرمایا ہے: { خلق الإنسان ، علّمہ البیان} (سورۂ رحمن: ۳-۴) اور فرمایا:’’علم بالقلم‘‘ اس طرح انسان جو کو معلومات ہوتی رہینگی، ان کو باقی رکھنے کا انتظام فرمایا اور ’’علم الإنسان ما لم یعلم‘‘ فرمایا، اس کے ذریعہ معلومات رکھنے کی مقدار کے بڑھنے اور بہتر سے بہتر ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ معلومات کایہ ذخیرہ خیروصلاح کا ذریعہ بھی ہوسکتا ہے اورخرابی وبگاڑکا سبب بھی، اس کے لیے فرمایا:’’ اقرأ باسم ربک‘‘ کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو،جب باسم ربک کی طرف توجہ دی تو یہ بتادیا کہ یہ دنیا دارالعمل ہے۔ اللہ نے انسان کوبے شمار نعمتیں دی ہیں، لیکن حکم یہ ہے کہ ضروت کے خلاف سے بچو، اور اچھے معیار کی پابندی رکھو، لہٰذاقلم اور ادب کی جو اہمیت ہے اس کو بھی واضح کردیا گیا کہ فاسد سے بچو ،صالح کو استعمال کرو، لیکن انسان جس طرح حاصل شدہ دولت کو اسراف وبے جا طریقہ سے صرف کرتا ہے، زبان وادب کوبھی صرف کرنے لگتا ہے اور ادب کے سلسلہ میں ایسا بہت ہوا ہے، جاہلیت کے دور میں تو خوب ہوتا تھا، اسلامی دور میں بھی ہونے لگتا ہے۔جاہلیت کی زندگی اورزبان وقلم کے بے قید استعمال نے اس خرابی کو بہت بڑھا دیا ہے جس کو سنبھالنے ی ضرورت ہے، خاص طور پر موجودہ عہد میں تو یہ خرابی عام ہوتی جارہی ہے، لہٰذا اس کو روکنے اور سنبھالنے کی ضرورت ہے اور’’ باسم ربک‘‘ کی پابندی ہی ادب کو اسلامی بناتی ہے ۔
حدیث شریف میں ادب کی اثر انگیزی اور خوبی کی بنا پر اسے جادو سے تعبیر کیا گیا ہے: { و إن من البیان لسحراً }اور اگر ہم موجودہ ماحول اور اس میں در آنے والی خرابیوں ، بگاڑ اور اخلاقی انارکی کا جائزہ لیں تو صاف معلوم ہوگا کہ اس قدر پستی، بگاڑ اور انتہائی خرابی کا اولین ذمہ دار یہی ادبی صلاحیت کا غلط استعمال ہے، اس لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ادبی صلاحیت اور طاقت کو جس کے دائرۂ کار اور اثر انگیزی کو موجودہ ذرائع ابلاغ نے بہت وسیع کردیا ہے، اس کے فطری رخ کی طرف واپس لایا جائے اور اس سے انسانی زندگی کی تعمیر و تشکیل اور اس کی عزت و حرمت بحال کرنے کا کام لیا جائے۔
مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے اس رابطہ کا قیام جنوری ۱۹۸۶ء میں عمل میں آیا ۔