رابطہ ادب اسلامی کے قیام کا پس منظر
عالمی رابطہ ادب اسلامی کی خشت اول مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی ہے، اوراس کے اولین صدر تھے، بلکہ درحقیقت وہ اسلامی ادب کی فکر کے مؤسس تھے اور یہ پودا ان کا لگایا ہوا ہے۔چنانچہ مولانارحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر۱۴۰۱ھ ( ۱۹۸۱ء) میں ندوۃ العلماء میں ادب کا پہلا سیمینار منعقد ہوا ، جس میں عالم عربی کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے چیدہ اور چنندہ ادباء و شعراء شریک ہوئے، اوراسی کے نتیجہ میں ادب اسلامی کی اس عالمی انجمن کی تشکیل ہوئی، پھر اس فکر نے ترقی کی اور عرب ادباء نے بھی اس کا استقبال کیا، ان سب کا تذکرہ حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’کاروان زندگی ‘‘ میںکیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں’’ مجھے اپنی تدریسی و تعلیمی مشغولیت کے زمانہ میں بھی اور اپنے تحریری و تصنیفی دائرہ کے اندر بھی، ہمیشہ اس حقیقت کا ادراک رہا کہ ادب اپنے اندر عظیم تعمیری و تخریبی طاقت رکھتا ہے، اس سے ایک طرف عقائد صحیحہ کی استواری ، اور صحت مند اور صالح رجحانات کی آبیاری کا کام لیا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف اخلاقی انسانی قدروں پر تیشہ زنی اور ذہنی و معاشرتی انتشار کا بھی، اور ہر دور میں اس کی روشن اور ناقابل انکار شہادتیں ملتی ہیں،لیکن اس دور میں ادب کی (اپنے وسیع معنی میں) جدید طاقتور وسائل کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے جہانگیری اور فرمانروائی بہت بڑھ گئی ہے، عرصہ سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ جس طرح کبھی فلسفہ کے راستہ سے الحاد اور تشکیک کا سیلاب مسلمانوں کے علمی و فکری طبقہ میں آتا تھا، اس کے بعد سائنس (خاص طور پر علوم طبیعیہ) کے راستہ سے تعلیم یافتہ طبقہ میں آنے لگا اور کہیں کہیں نفسیات (سائکالوجی) اجتماعیات (سوشیالوجی) اور اقتصادیات و سیاسیات کے راستہ سے آتا تھا، اب بہت سی جامعات اور دانشگاہوں میں ادب کے ذریعہ سے آرہا ہے۔
خاص طور پر یہ بات فکر و دعوت اسلامی کے حاملین کے لیے تشویش کا باعث تھی کہ بلاد عربیہ بالخصوص مصر میں تقریباً نصف صدی سے ادب و تنقید اور نوجوانوں کو ذہنی و ادبی غذا پہونچانے کے میدان پر اُن ادباء اور اہل قلم کی اجارہ داری قائم ہوگئی تھی ، جن کے عقائد میں خود تزلزل، ذہن میں انتشار اور تحریروں میں تشکیکی رجحان پایا جاتا تھا، اس لیے ایک طرف اس کی ضرورت تھی کہ عربی ادب کے خزانۂ عامرہ سے وہ طاقتور اور دل آویز ادبی و تحریری نمونے نکالے جائیں اور ان کو نمایاں کیا جائے، جن کو سہولت پسندی اور قدیم مورخین ادب کی پیروی میں نظر انداز کردیا گیا، یا اس قصور میں کہ وہ کسی عالم و داعی اور دینی شخصیت کے قلم سے نکلے ہیں، ان کو ’’ ایوان ادب ‘‘ سے دور کردینے یا الگ رکھنے کی سزا دی گئی اور صدیوں ان پر پردہ پڑا رہا۔ دوسری ضرورت اس کی تھی کہ ادب عربی کے ایسے اساتذہ، اہل قلم اور دانشوروں کو جمع کیا جائے جو عربی ادب و انشاء اور تنقید و تاریخ ادب کو صحیح رخ پر لگانے کی کوشش کریں ، اور جدید نسل کو صالح غذا پہونچانے کے لیے ایک نیا ذخیرۂ کتب (مکتبہ) اور ایک نیا مدرسۂ فکر (مکتب خیال) پیدا کرسکیں۔
پہلے جزء کے سلسلہ میں اس مضمون کے ذریعہ اس کام کی دعوت دی گئی جو دمشق کی رائل اکیڈمی المجمع العلمي العربي(حال مجمع اللغۃ العربیۃ) کی رکنیت کے موقع پر۱۹۵۷ء میں اس کے رسالہ کے لیے لکھا گیا تھا، جو’’ المجمع ‘‘ میں شائع ہوا، اور اب وہ ’’ مختارات من أدب العرب ‘‘ کا مستقل مقدمہ ہے۔ بعض بلند پایہ اساتذۂ ادب نے اس کا اعتراف کیا کہ ان کے لیے یہ مضمون فکر انگیز ثابت ہوا اور اس سے ان کے اندر ادب اسلامی کی تحریک پیدا ہوئی۔ دوسرے مقصد کی ضرورت کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء میں ۱۷-۱۹؍ اپریل ۱۹۸۱ء میں ایک بین الاقوامی سیمینار کیا گیا جس کا موضوع ’’ عربی ادب میں خصوصاً اور دوسری زبانوں کی ادبیات میں عموماً اسلامی عناصر کی تلاش ‘‘ تھا، توقع اور قیاس سے بڑھ کر ممالک عربیہ میں اس دعوت و تحریک کا استقبال ہوا اور اس کو Response ملا، اس میں حصہ لینے کے لیے متعدد عرب ممالک کے ممتاز فضلاء و ادباء لکھنؤ آئے، جن میں دورحاضر کے متعدد بلند پایہ مصنفین، فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین اور شعراء و ادباء شامل تھے‘‘۔ (کاروان زندگی:۲؍۳۲۸-۳۳۰)